حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انجمنِ فقہ تربیتی کا تیرہواں علمی اور تحقیقی مجلہ ”تعلیم و تربیت“ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے فقہی شعبے کے تحت چھپ کر منظر عام پر آگیا ہے۔
فقہ اسلامی میں مکلّف کے تمام اختیاری اعمال کی طرح، تعلیمی و تربیتی طرزِ عمل کے لئے بھی حکم موجود ہے۔ فقہ تربیتی تعلیم و تربیت سے منسلک افراد یعنی اساتذہ اور مربیوں کے اختیاری افعال کے لئے اجتہادی اور استنباطی طریقے سے حکم معین کرتا ہے۔
دینی مراکز میں تعلیم و تربیت کا شعبہ باقی تمام تعلیمی شعبوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ حوزہ علمیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کی اصلاح، تعلیم و تربیت، تبلیغ دین اور اسلامی معارف کی نشر و اشاعت کا علمبردار ہے، اس لئے حوزہ علمیہ لوگوں کی شرعی ذمہ داریوں کی تشخیص اور تعیین کو اپنا وظیفہ سمجھتا ہے، اس کا لازمہ یہ ہے کہ علمی میدان میں یہ شعبہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ مجلۂ تعلیم و تربیت انجمنِ فقہ تربیتی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اب تک اس علمی تحقیقی مجلے کے تیرہ شمارے منظر عام پر آ گئے ہیں۔
اس علمی تحقیقی مجلہ کے چیف ایڈیٹر معروف کالم نگار، محقق اور جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے استاد جناب ڈاکٹر محمد لطیف مطہری ہیں، جن کی کوششوں سے یہ علمی تحقیقی مجلہ منظر عام پر آرہا ہے۔
اس جدید شمارہ کے مقدمے میں آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی) کے تعزیتی پیغامات ذکر کئے ہیں جسے آپ نے مقاومت کے سردار مجاہد کبیر حزب اللہ لبنان کے دبیر کل جناب حجت الاسلام سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ لبنان کی مجلس عاملہ کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین کی شہادت پر مزاحمتی محاذ کے جوانوں کے نام جاری کیا ہے۔مجاہد کبیر، خطے میں مقاومت اسلامی کے علمبردار، صاحب فضیلت عالم دین اور صاحب تدبیر سیاسی راہنما جناب سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ علیہ کے بارے میں آپ نے فرمایا: دنیائے اسلام ایک باعظمت شخصیت سے، محاذ مقاومت اپنا نامی گرامی علمبردار سے اور حزب اللہ لبنان منفرد قائد سے، محروم ہو گئے، لیکن ان کے کئی عشروں پر جہاد و تدبیر کی برکتوں کو ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دیا جائے گا۔ جو بنیاد انھوں نے لبنان میں رکھی ہے اور مقاومت کے دوسرے مراکز کی جو راہنمائی کی، وہ سید کی شہادت کی وجہ سے، ختم نہیں ہوگی، بلکہ سید اور اس واقعے کے دوسرے شہداء کے خون کی برکت سے اس کو مزید استحکام ملے گا۔ سید المقاومہ، ایک شخص ہی نہیں تھے، بلکہ ایک مشن اور ایک مکتب تھے، اور یہ مشن بدستور جاری رہے گا۔ شہید سید عباس موسوی کا خون زمین پر نہیں رہا، شہید سید حسن کا خون بھی زمین پر نہیں رہے گا۔سید المقاومہ، ایک شخص ہی نہیں تھے، بلکہ ایک مشن اور ایک مکتب تھے، اور یہ مشن بدستور جاری رہے گا۔
اس طرح رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کی مجلس عاملہ کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین کی شہادت پر ان کے بارے میں فرمایا:شجاع، فداکار و مجاہد سید، جناب سید ہاشم صفی الدین رضوان اللہ علیہ مزاحمت کے شہیدوں کی صف میں شامل ہو گئے اور ایک اور درخشندہ ستارے نے قدس شریف کی راہ میں جہاد کے آسمان کو مزین کر دیا۔ وہ حزب اللہ کی سب سے بڑی اور نمایاں شخصیات میں سے ایک اور جناب سید حسن نصر اللہ کے دائمی ساتھی اور مددگار تھے۔ ان جیسے رہنماؤں کی تدبیر اور شجاعت کی وجہ سے ہی حزب اللہ ایک بار پھر لبنان کو تقسیم و انتشار کے خطرے سے محفوظ رکھنے اور غاصب حکومت کی سازش کو، جس کی سفاک و ظالم فوج کبھی کبھی بیروت تک کو پامال کر دیتی تھی، ناکام بنانے میں کامیاب رہی۔ آج نصر اللہ اور صفی الدین جیسے رہنما بظاہر اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان کی روح اور قیادت میدان میں موجود ہے اور لبنان اور اس کے نہتے عوام کا دفاع کر رہی ہے۔
مقالات کی تفصیلات:
پہلے مقالے کا عنوان روایات کی روشنی میں جوان اور جوانی کی اہمیت ہے، اس مقالے میں جوان اور جوانی کو اللہ تعالٰی کا ایک انمول نعمت قرار دیا گیا ہے، اس تحقیق میں تحلیلی اور توصیفی طریقہ سے دین اسلام میں جوان اورجوانی کی اہمیت روایات کی روشنی میں بیان کی گئی ہے۔قرآن کریم، پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے جوانی کو خدا کی سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک اور انسانی زندگی کی سعادت کے عظیم اثاثوں میں سے ایک اثاثہ قرار دیا ہے۔قرآن کریم نے زندگی کے تین اہم ادوار کا ذکر کیا ہے جن کی خصوصیات کمزوری، طاقت اور ثانوی کمزوری ہیں، جو بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہیں۔ اسلامی نصوص میں جوانی کے بارے میں دو قسم کے معارف سودمند ہیں ۔ ایک :وہ روایتیں جو جوانی کی اہمیت اور قدر کو بیان کرتی ہیں۔ دوسرا:وہ روایات جن میں جوانی کی توصیف اور نوجوانوں کی جسمانی، جذباتی اورروحانی خصوصیات وغیرہ بیان ہوئی ہیں۔ دین اسلام میں جوانی کا زمانہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کا انسانی زندگی کے کسی دوسرے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ غیر اسلامی افکار میں نوجوانوں اور جوانوں کی عجیب و غریب تصویر پیش کی گئی ہے وہ اسے فاسد،سرکش ،عاصی، طغیان گر،باغی اور ایک ناپاک مخلوق کے طور پر متعارف کراتی ہے یا کم از کم ان کی کوئی مثبت تصویر پیش نہیں کرتی۔ظاہر ہے کہ یہ منفی رویے اس حقیقت کے علاوہ کہ معاشرے کے عظیم، فعال، طاقتور اور متحرک طبقے کو اس کے اصلی عنصرسے الگ کر دیتے ہیں ،جوانوں میں ایک قسم کی مایوسی پیدا کرتی ہے اور یہ خو د ان کی فکری اور اخلاقی انحرافات کی شکل گیری کے لئے زمینہ فراہم کرتا ہے۔ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ اسلامی روایات میں جوانی کی اہمیت بہت زیادہ بیان ہوئی ہے تاکہ انسان اس قیمتی اورانمول خدادادی نعمت کو بہتر طریقے سے درک کرتے ہوئے اس اہم دور سے بہترین استفادہ حاصل کرسکیں۔
دوسرے مقالے کا موضوع افکار امام خامنہ ای مد ظلہ العالی میں خاندان کی تربیت گام دوم انقلاب کے تناظر میں ہے۔ رہبر معظم نے گام دوم کے مراحل میں سے ایک مرحلہ تہذیب وتمدن کو قراردیاہے اور ایک انسان ساز تہذیب و تمدن کی ضرورت و اہمیت کو قرآنی آیات کی روشنی میں بیان فرمایاہے اوراس مہذب تہذیب وتمدن کی بنیادی اکائی خاندان کو ہی قراردیتے ہیں ۔جب تک گھر کاماحول سازگار نہ ہوانسانی معاشرےکےلئےامنیت اورسلامتی کاباعث نہیں بن سکتااورقرآنی تعلیمات کی روسے "خونی رشتوں کا تقدس،آپس میں الفت، محبت،ایثاروقربانی کاجذبہ پیداکرنا،والدین اورشوہرکےمعقول حکم پرعمل کرنے "کی بھی تلقین کرتےہیں۔امام خامنہ ای کی نگاہ میں آدمی کوصرف اچھاملازم یا اچھی مہارت رکھنے والا فردبنناکافی نہیں ہے،بلکہ معاشرےکےلئےایک اچھافرد،ماں،باپ کافرمانبردار اورایک موحدانسان بننا چاہئے۔امام خامنہ ای نےمغربی تہذیب وتمدن کے ان تمام اصولوں پربھی خط بطلان کھینچاہے کہ جوقرآن کےخاندانی نظام اورتربیتی اصولوں کو بیہودہ اورخودساختہ قراردیتےہیں۔لہذا اس مقالےمیں امام خامنہ ای کےان فرمودات اور تحریرو ں کا تحقیقی اور تحلیلی جائزہ لیاگیاہے جن میں خاندانی نظام کی اہمیت ،تربیت کےاہداف، اصول اورعوامل کو قرآنی آیات کی روشنی میں پیش کئے ہیں۔
تیسرے مقالے کا موضوع بردباری کا تربیتی مقام اور خانوادہ کے استحکام میں تاثیر قرآن و سنت کی نگاہ میںہے۔ بردباری معاشرتی زندگی کے بنیادی اخلاقی اصولوں میں سے ایک ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ معاشرتی رہن سہن میں نرم برتاؤ ،بردباری بہت اہمیت کےحامل ہیں۔ اوریہ عنصر خانوادہ کے استحکام کا باعث ہے ۔خانوادگی ماحول میں نرم مزاجی اور امن وسکون کو فروغ ملنا چاہیے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہونا چاہیے، کیونکہ نرم برتاؤ اور بردباری خانوادے میں اضطراب کو کم کرنے اور پرامن وخوشگوار ماحول پیدا کرنے میں بہت زیادہ مؤثرہیں، یہ خاندانی استحکام اورصحیح و سالم نسلوں کی تربیت اور پرورش کے لیے زمینہ ہے۔ خاندانی ماحول میں نرم برتاؤ اور بردباری کا فقدان آزار کا باعث ہے اور سختیوں کو جنم دینے کے ساتھ روحانی سکون کو غیر محفوظ بناتا ہے۔ تربیت کے میدان اور خانوادہ کے استحکام کے لیے نرمی اور بردباری کے خاص اثرات ہیں، اس لیے قرآن و سنت میں، معاشرے میں امن و سکون اور نرمی وبردباری سے کام لینےکا حکم دیا گیاہے، خصوصاً خانوادہ کے استحکام کے لیے اس پر زور دیا گیا ہے۔ اور ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ اس طرز زندگی کے سلسلے میں نرمی اور بردباری کے مؤثر ہونے کو بیان کریں کہ جس پر رہبر معظم سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی) نے خصوصی توجہ دلائی ہے۔ لہٰذا اس مضمون میں نرم برتاؤ اور بردباری کے تربیتی مقام اور خانوادہ کے استحکام میں اس کے اثرات اور اس کے مختلف پہلوؤں اور تربیتی اثرات کو قرآن و سنت کے نقطہ نظر سے توصیفی اورتحلیلی طور پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
چوتھے مقالے کا عنوان امام رضا علیہ السلام کے نقطۂ نظر سے کامیاب خاندان کی خصوصیات کا جائزہ ہے۔ اسلام ایک جامع اور مکمل دین کے طور پر خاندان کی مدیریت کو انسان کی شخصیت کی بلندی میں سب سے اہم عنصر کے طور پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ کامیاب خاندان وہ ہے جو تمام پہلوؤں میں متوازن اور ہم آہنگ انداز میں ترقی کرے اور افراط و تفریط سے بچا رہے۔ کامیاب خاندان کی اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب خاندان محبت، رحمت، اور مودت کا مرکز ہو اور صالح نسل کو معاشرے میں منتقل کرے، تاکہ علم اور اللہ تعالیٰ کے تکبیر کہنے والے افراد کی تعداد زمین پر بڑھتی رہے۔ امام رضا علیہ السلام کی خانوادگی سیرت ایک مکمل اور مثالی اسلامی خاندان کی بہترین مثال ہے۔ اس خاندان میں عاطفی تعلق بہت گہرا تھا، جس میں امام رضا علیہ السلام اپنے خاندان کے افراد، بالخصوص بچوں کے ساتھ محبت، احترام اور آزادی کے اصولوں کا خیال رکھتے تھے اور ان پر نگرانی کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے۔
پانچویں مقالے کا عنوان خاندانی زندگی میں صداقت کا کردار ہے۔ معاشرے کی اہم بنیاد خاندان ہے۔ اور اس مقدس عمارت کی مضبوطی؛ کمیونٹی کی ترقی کے افق پر واضح خط کھینچے گی۔ خاندان ان اولین اداروں میں سے ہے جس کو اسلامی طرز زندگی کو قائم اورمزین کرنے ؛جو کہ فطرت اور حرکت پر مبنی ہے؛ اور فضیلت اور کمال کیلیے تشکیل دیاگیا ہے اور انسانی تہذیب کی تعمیر اور نئی نسل کی پرورش، ارکان کی سلامتی اور ذہنی سکون فراہم کرنے، لوگوں کیا احساساتی ضروریات کو پورا کرنے اور بچوں کی مناسب پرورش میں اس کا بہت ہی گراں قدر حصہ ہے۔ بہت سے عوامل خاندان کی بنیاد کو مضبوط بنانے میں کارآمد ہیں؛ ان میں سے خاندان میں حسن معاشرت، نظم و ضبط، خاندان میں مشورے کے جذبے کا وجود، زندگی میں صبر و استقامت، عفو و درگزر کا جذبہ، خاندانی ماحول میں صداقت کی حکمرانی، بدگمانی سے بچنا، حسد کی آفت، رازداری اور وفاداری، سکون اور تکبر کے بغیر چلنا، نرمی اور بردباری، خدا کے عذاب کا خوف، افراط و تفریط سے بچنا، عاجزی، سختی اور اسراف سے اجتناب اور والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ اس مقالے میں اسلامی منابع سے استفادہ کرتے ہوئے گام دوم میں خاندان کے استحکام کے عوامل میں سے ایک (خاندانی زندگی میں صداقت کا کردار) کا جائزہ لیا گیا ہے۔
چھٹے مقالے کا عنوان "بیانیہ گام دوم انقلاب" کی رو سے خاندان کے استحکام میں شریک حیات سے اظہار محبت کا کردار ہے۔ اسلامی ثقافت میں خاندان ، معاشرے کا ایک اہم حصہ ہےـ ایک خاندان ایک معاشرہ کی اکائی ہے یہ انسانی معاشروں کا مرکزی.محور اور انسانی فطری اقدار کا اصل سرچشمہ ہے. خاندان اسلامی تہذیب کے اکمال اور ایک صالح اور مستحکم اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار، مذہبی عقائد اور سماجی اصولوں کاآئندہ نسل میں منتقل ہونا ایک مضبوط گھرانے کی بدولت ہی ممکن ہے۔ لہٰذا اسلام اور اسلامی طرز زندگی کے حوالے سے بیانیہ گام دوم میں رہبر معظم انقلاب نےعائلی زندگی کو محفوظ رکھنے اور اس کے استحکام کے لیے بہت سی راہیں بیان کی ہیں اور ان کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ خاندان،گھرانے میں استحکام اور دوام برقرار رہے تاکہ گھرانوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔اب سوال یہ ہے کہ اسلامی گھرانے کو کیسے مستحکم بنایا جا سکتا ہے ؟ البتہ خاندان کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں کئی عوامل کارآمد ہیں۔ جس میں عفو ودرگزر،چشم پوشی، معذرت قبول کرنا ، شکریہ ادا کرنا، رازداری اورعیب پوشی، مذہبی عقائد کو مضبوط کرنا، ایمانداری، شک اور حسد سے بچنا، انصاف پسندی، اور میاں بیوی کا ایک دوسرے سے محبت کا اظہار وغیرہ شامل ہیں۔ اس مضمون میں تجزیہ و تحلیل کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خاندان کے تحفظ اور استحکام اور بیوی سے اظہار محبت کو بیان کیا گیا ہے۔ مطالعات کی رو سے، اظہار محبت کے لیے جو اہم ترین طریقے اپنائے جا سکتے ہیں وہ گفتار، رفتار اور کتابت ہیں۔ خاندان کے استحکام میں اظہار محبت کے سب سے بنیادی نتائج ، روحانی طور پر اختلافات اور مسائل کا کم ہونا ، احساساتی رابطے کا محکم ہونا، خاندانی استحکام اور دوسروں کو اعتماد میں لینا، ازدواجی زندگی میں اطمینان کا حصول اور جذباتی طلاق سے بچاؤ وغیرہ شامل ہیں ۔